Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

16اس کو پتا نہ تھا شیری عادلہ کے روم میں ہے ،وہ مسز عابدی کے کہنے پر اسے دیکھنے آ رہی تھی کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے تب وہ روم سے باہر آتے شیری کے بگڑے تیور دیکھ کر ستون کی آڑ میں کھڑی ہو گئی تھی۔ دوسرے لمحے اس کی موجودگی سے بے خبر وہ وہاں سے گزرا اور پری نے اس کے چہرے پر چھائے تاثرات دیکھے تھے ،وہ دنگ رہ گئی تھی۔
وہ سوچ رہی تھی عادلہ کے گرنے کا سن کر اس کی محبت میں وہ بھاگا چلا آیا ہے ،عادلہ کی تکلیف اس کی بھی تکلیف ہو گی ،لیکن اس کے چہرے کے تاثرات میں غصہ خشونت و عجیب سی کوئی کیفیت پنہاں تھی۔
شیری نگاہوں سے اوجھل ہوا تو وہ ستون کی آڑ سے کل کر عادلہ کے کمرے کی طرف بڑھی تو دروازہ ادھ کھلا تھا ،وہ دو قدم اور آگے بڑھی معاً پردہ ہٹانے کیلئے اس کے ہاتھ اٹھے رہ گئے تھے ،اندر سے رونے کی آواز آ رہی تھی۔


عادلہ شدت سے رو رہی تھی اس کی سسکیاں پری کو ساکت کر گئیں۔ وہ گھٹے گھٹے انداز میں رو رہی تھی اس کے باوجود بھی آواز واضح تھی۔

شیری کے عجیب و غریب سمجھ نہ آنے والے تاثرات… یہاں عادلہ کا اس طرح بے بس سے انداز میں رونا ،اضطراب و انتشار کی ایک لہر رگ و پے میں دوڑتی چلی گئی۔ اس کی ہمت نہ ہوئی اندر جا کر عادلہ کا سامنا کرنے کی ویسے بھی وہ ان دنوں نامعلوم کیوں اس سے دور دور کھنچی کھنچی رہ رہی تھی ،اس نے آہستگی سے پردہ ہٹا کر دیکھا۔ عادلہ گھٹنوں میں چہرہ چھپائے رونے میں مشغول تھی ،بال بری طرح بکھرے ہوئے تھے ،دوپٹہ بیڈ سے کارپٹ پر لٹک رہا تھا ،اس نے پردہ چھوڑا اور دبے قدموں وہاں سے پلٹ گئی۔
###
ملازمہ کے ساتھ مل کر اس نے چائے کے ساتھ کچھ ڈشز بنا لی تھیں ،صباحت نے بیکری سے بھی بھرپور سامان منگوا لیا تھا اس وقت گھر میں طغرل کے علاوہ فاخر بھی موجود تھا۔
شیری فاخر سے بڑے پرجوش انداز میں ملا تھا ،گلے ملنے کے بعد بڑے خلوص سے مصافحہ کیا اور کئی لمحوں تک اس کا ہاتھ تھامے وہ قریب کھڑے طغرل کو پوری طرح سے نظر انداز کر رہا تھا۔
وہ سب لاؤنج میں بیٹھے تھے مسز عابدی ،اماں جان کے قریب بیٹھیں باتوں میں مصروف تھیں ،دوسرے صوفے پر صباحت بیگم بھی ان کی باتوں میں حصہ لے رہی تھیں جب سے ان کا ضمیر بیدار ہوا تھا ،ان کے انداز میں نرمی و مروت کرنوں کی طرح چمکنے لگی تھی۔
وہ تینوں ان سے کچھ دور تھے اور طغرل ابھی تھوڑی دیر قبل ہی آفس سے آیا تھا پھر فریش ہو کر ادھر ہی چلا آیا تھا۔
”تھینکس گاڈ! تم نے مجھے پہچانا تو مسٹر شہریار صاحب!“ طغرل نے ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”ارے میں آپ کو کیسے بھول سکتا ہوں مسٹر طغرل!“ غیر ارادی طور پر اس کی پیشانی پر شکنیں در آئی تھیں ،آنکھیں لو دینے لگی تھیں ،مسکراتے لب اس کا ساتھ دینے سے قاصر تھے۔
”اپنے دشمنوں اور دوستوں کو میں کبھی نہیں بھولتا۔“
”اوہ پھر میرا شمار کس میں ہوتا ہے ،دشمنوں میں یاد دوستوں میں؟“ طغرل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ذومعنی لہجے میں پوچھا۔
”آپ کیا فیل کر رہے ہیں؟“ اس نے بڑے ضبط سے مسکراہٹ قائم رکھی۔
”آپ نے جس اسٹائل میں مجھ سے شیک ہینڈ کیا ہے ،وہ انداز فرینڈ شپ والا تو نہیں ہے۔“ اس نے اپنے دائیں ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا جس کو مصافحے کے دوران شیری نے طاقت سے توڑنے کی سعی تھی طغرل اس کے اندر پر کنفیوزڈ تھا۔
”او مائی گاڈ ،یہ آپ لوگوں نے کیا باتیں شروع کر دی ہیں؟“ ان کے قریب کھڑے فاخر نے مسکراتے ہوئے مداخلت کی تو وہ دونوں بھی ساتھ ہی بیٹھ گئے تھے۔
شیری نے بڑی مشکل سے اپنے اندر اٹھتی آندھی کو قابو کیا تھا جو طغرل کو دیکھتے ہی اس کے اعصاب کو جھنجوڑنے لگی تھی۔
”ڈونٹ مائنڈ فرینڈ! میرے دل میں آپ کیلئے اسپیشلی فیلنگز ہیں ،ایسی فیلنگز شاید ہی کوئی کسی کیلئے رکھتا ہوگا۔“
”جی…“ طغرل نے مسکراتے ہوئے مختصر لفظ کہنے پر ہی اکتفا کیا تھا اور وہ عائزہ کے ساتھ لوازمات سرو کرتی پری کو دیکھنے لگا۔
پیچ اور سی بلیو کلرز کے فراک سوٹ میں اس کی صاف و شفات رنگت دمک رہی تھی اس کے حسین مکھڑے پر عجیب سی کشش تھی اور اس کشش میں اس کو متوجہ کرنے والی جو چیز تھی وہ ایک بے چینی تھی ،وہ دیکھ رہا تھا۔ اس کی مسکراہٹ میں بے ساختگی نہیں تھی ،اٹھتی گرتی پلکوں کے ردھم میں کوئی اسرار پوشیدہ تھا اور اس کی بے چینی اسے بھی بے چین کرنے لگی تھی۔
”پری! آپ عادلہ کو بلانے گئی تھیں بیٹا! وہ آپ کے ساتھ نہیں آئیں؟“ مسز عابدی نے اس کے ہاتھ سے لوازمات کی پلیٹ لیتے ہوئے استفسار کیا۔
”جی وہ سو رہی ہے… میں نے اسے بیدار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔“ اس نے پلیٹ پکڑاتے ہوئے خاصی سمجھداری سے بات سنبھالی تھی۔
”بہت اچھا کیا آپ نے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے پری سے مخاطب ہونے کے بعد ان سے کہا۔
”صباحت بھابی! کیا عادلہ کے زیادہ گہری چوٹیں آئیں ہیں؟ وگرنہ چھوٹی موٹی تکلیف کی بچیاں پروا بھی نہیں کرتی ہیں اور میں جانتی ہوں عادلہ بہت ہمت والی ہے۔
وہ معمولی چوٹوں پر بیڈ ریسٹ کرنے والی نہیں۔“ ان کی فکر مندی پر گفتگو کرتے شیری کی سماعتیں بڑھ گئی تھیں۔
”بظاہر ایسی کوئی چوٹ دکھائی نہیں دیتی ہے بھابی! لیکن دو تین دن تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑی بھی نہ ہو سکی ،اتنا درد ،اتنی اکڑ اس کے جسم میں تھی گویا ہڈیاں ٹوٹ کر رہ گئی ہوں ،کسی پل چین و آرام نہیں تھا اب تو اللہ کا شکر ہے خاصی بہتر ہے وہ۔
”مجھے بھی سمجھ نہیں آیا عجیب ہی درد میں مبتلا رہی ہے بچی! خیر اب تو بہتر ہے تم کباب کھاؤ ٹھنڈے ہو کر بے مزہ ہو جائیں گے ،ابھی جاگ جائے گی تو مل لینا اپنی بہو سے۔“ دادی نے ہنستے ہوئے اپنی پلیٹ سنبھالی تو وہ سب ہی کھانے پینے کے دوران باتوں میں مشغول تھے۔
مسز عابدی فاخر اور عائزہ کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں جو ایک ہفتے بعد اسلام آباد کیلئے روانہ ہونے والے تھے پھر انہوں نے سب کو دوسرے دن گھر پر ڈنر کی دعوت دے دی۔
”پری بیٹا! آپ کو بھی ضرور آنا ہے۔“ طغرل کو انوائٹ کرنے کے بعد وہ شفقت بھرے لہجے میں مخاطب ہوئی تھیں۔
”پری تو کل اپنے بھائی سے ملنے جائے گی وہ امریکہ سے آیا ہے۔“ اس کو شش و پنج میں دیکھ کر دادی نے فوری مدد کی تھی۔
”نو پرابلم دادی جان! ہم ان کے وہاں سے آنے کے بعد یہ ڈنر رکھ لیتے ہیں۔“ شیری نے پارس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اس کی نگاہوں کی بے حجابی… خمار آلود لہجے کی حدت طغرل نے محسوس کی اور چونک کر دیکھا۔ پری پوری طرح اس کی نگاہوں کے حصار میں تھی اور اس کی نگاہوں کی زبان طغرل کو سمجھنے میں دیر نہ لگی۔ مرد کی فطرت دوسرے مرد سے کس طرح پوشیدہ رہ سکتی ہے ،اس کی نگاہوں کے رنگ اس کا خون کھولانے لگے تھے ،ایئر کنڈیشنڈ روم میں بھی اسے آگ جھلسانے لگی تھی جبکہ اس کی کیفیت سے بے خبر پری کہہ رہی تھی۔
”ایسا تو اسپیشلی نہیں ہے میرا شریک ہونا ڈنر میں آنٹی۔“
”ارے یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ مس پری! آپ تو بالکل خاص ہیں ہمارے لئے ،آفٹر آل آپ ہماری سالی ہیں یعنی پورے گھر والی۔۔“
”پورے گھر والی نہیں! آدھی گھر والی۔“ دادی نے تصحیح ی تو بھرپور قہقہہ پڑا تھا۔
جس میں طغرل اور پری کی آواز شامل نہ تھی ،پری اس بات پر جھینپ گئی تھی ،طغرل کے بدن پر تو گویا پتنگے چمٹے ہوئے تھے وہ پری پر گرم ہوا بھی برداشت نہ کر سکتا تھا پھر یہ تو گرم نگاہوں کا معاملہ تھا اسے شدت سے اپنی کنپٹیاں چیختی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔
”بات سنو میری باہر آکر فوراً۔“ وہ اٹھا اور اس کے کان میں سرگوشی کرکے چلا گیا اس نے کسی کی پروا نہیں کی تھی۔
”یہ طغرل کو کیا ہوا ،بنا کھائے پیئے ہی چلا گیا؟“ دادی نے حیرانی سے اسے جاتے دیکھ کر کہا۔
”ان کے اس طرح بھاگنے کی وجہ مس پری ہی بتا سکتی ہیں ،طغرل ان کے کان میں ہی کچھ کہہ کر گئے ہیں۔“ شیری نے گہرے لہجے میں کہا۔
”پہلے ہی پری کو شیری کی مسلسل گھورتی نظروں سے الجھن ہو رہی تھی ،مزید طغرل کا سرد انداز فکر مند کر گیا تھا۔
###
وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے بیڈم روم میں چلا گیا تھا ،رگ و پے میں ان دیکھی آگ بھڑک اٹھی تھی چند لمحے کھڑا وہ اپنے تیز رفتار تنفس پر قابو پاتا رہا پھر فریج سے کولڈ ڈرنک نکال کر پینے لگا ،مشروب کی برفیلی ٹھنڈک نے اس کے اندر بھڑکتی طیش و تنفر کی آگ کو دھیرے دھیرے بجھانا شروع کر دیا تھا۔
تنے ہوئے اعصاب نارمل ہونے لگے تو سوچنے سمجھنے کی حس بیدار ہو گئی،جذبات کی پورش میں جو وہ شیری کو شوٹ کرنا چاہا تھا ،اس کی ان بے ہودگی بھری نگاہوں کو بینائی سے محروم کر دینا چاہتا تھا وہ کین پھینک کر بیڈ پر بیٹھ گیا اس کے اندر جنگ جاری تھی۔
”تمہیں شہریار کے بارے میں اس طرح نہیں سوچنا چاہئے طغرل! وہ عادلہ کا فیانسی ہے اس گھر کا داماد ہے اور آنٹی صباحت بتا رہی تھیں وہ اور عادلہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔
“ اس کے اندر سے صدائیں ابھری تھیں۔
”لیکن وہ جس مکروہ انداز سے پارس کو دیکھ رہا تھا ،وہ نظر احترام سے خالی تھی جس نگاہ میں وقار و احترام نہ ہو جو رشتوں کے تقدس و احترام سے عاری ہو وہ نگاہ ،وہ رشتہ قابل اعتماد نہیں ہوتا ،میل دل میں آئے یا نگاہوں میں ،تعلق کو داغدار کر دیتا ہے اور میں نے ایسا ہی میل شہریار کی آنکھوں میں دیکھا ہے۔
”پلیز کول ڈاؤن! جو تم نے دیکھا وہ تمہاری نگاہوں کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔“
”مگر میں ایسا کیوں محسوس کروں گا؟“ وہ خود سے الجھ رہا تھا۔
”اس لئے کہ تم پری سے بے انتہا محبت کرتے ہو اور ایسی چاہت خود غرض کر دیتی ہے ،وہمی بنا دیتی ہے۔ خوامخواہ شکی ہو جاتا ہے بندہ۔“
”نہیں… ایسا کچھ نہیں ہے محبت تو اعتماد سکھاتی ہے ،اعتبار دلاتی ہے جو مجھے خود پر بھی ہے اور پارس پر بھی بھرپور ہے۔
شہریار کے انداز میں کچھ ایسی بات تھی جو میرے دل کو سخت ناگوار گزری ہے۔“ دروازہ ناک کرکے پری اندر داخل ہوئی اور متفکر انداز میں گویا ہوئی۔
”آپ وہاں سے چائے پیئے بغیر آ گئے ،کیا طبیعت خراب ہے آپ کی؟“
”نہیں دماغ خراب ہو گیا ہے میرا۔“ وہ غصے سے بولا۔
”ارے کچھ دیر پہلے تو آپ بالکل ٹھیک تھے ،پھر ایسا کیا ہوا ہے جو اس طرح آپ کا موڈ خراب ہو گیا۔
“ وہ حیران و پریشان ہوئی۔
”جواب میں بے حد خاموشی سے وہ اسے دیکھے گیا تھا۔ اس کی بے حد اجلی و شفاف رنگت ،خوبصورت سیاہ ہیروں کی چمک دار آنکھیں۔ سادگی بھرا خود سے غافل رہنے والا بے پروا انداز اسے سب میں نمایاں کرتا تھا اور یہی سادگی اور بے پروائی اس کے دل کو چھو گئی تھی پھر اس چہرے کو کوئی اور بھی استحقاق سے دیکھنے کی جرأت کرے ،وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
اس کو اپنی طرف یک ٹک دیکھتے پا کر وہ بری طرح جھینپی لیکن کئی سیکنڈز گزرنے کے بعد بھی اس کی محویت میں کمی واقع نہ ہوئی تو اسے اس کا انداز نارمل محسوس نہ ہوا تھا۔
”میں دادی کو بلا کر لا رہی ہوں ،آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے۔“ وہ کہتی ہوئی آگے بڑھی تھی تب ہی اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”تمہیں اس ڈفر کی موجودگی میں وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
“ اس کے لہجے میں خاصی سرد مہری تھی وہ پریشان ہو کر گویا ہوئی۔
”ڈفر… کون… کس کو کہہ رہے ہیں آپ؟“
”اوہ گاڈ!“اس نے سر جھٹکا ،اسے خیال آیا یہ بات اسے پارس سے نہیں کہنی چاہئے۔
”کیا ہوا ہے؟ آپ بے حد اپ سیٹ لگ رہے ہیں اور ابھی آپ کس کی بات کر رہے تھے؟“ اس کی حساس نگاہوں سے طغرل کے چہرے کے بدلتے رنگ مخفی نہ رہ سکے تھے۔
”ایم سوری! نامعلوم کیا کہہ گیا ہوں ،مجھے خیال ہی نہیں ہے۔“ اس کے لہجے میں نرمی در آئی تھی۔
”آپ مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں؟“
”کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں ،دراصل فیکٹری اور آفس کی فائنل ٹچ کی وجہ سے ذہن الجھا ہوا ہے۔“

   1
0 Comments